پاکستان کا نسیم حجازی - ترکی کا مہمت بوزداگ

پاکستان کا نسیم حجازی - ترکی کا مہمت بوزداگ


(ہمارے ہاں عمومی طور پر جب لوگ ترکی اور سلطنت عثمانیہ کی تاریخ پر ڈرامے بنتے دیکھتے ہیں تو انکے دل میں ایک کسک اور آس اٹھتی ہے کہ کاش ! پاکستان میں بھی ایسے ڈرامے بنیں...مگر کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مہمت بوزداگ جیسا مصنف پاکستان میں موجود نہیں اور یہاں پر مسلمانوں کی تاریخ کے بارے میں اردو ادب میں ایسا مواد موجود نہیں ہے

آئیے آپکی غلط فہمی کو دور کرتا ہوں 


اردو ادب میں برصغیر میں مسلمانوں کی درخشاں تاریخ کو نسیم حجازی نے جس منفرد اور عمدہ انداز سے اپنے ناولز میں پیش کیا ہے وہ یہاں پر بیان نہیں کیا جاسکتا....جب میں نے ارطغرل اور مہمتچک کوت العمارہ , یونس ایمرے جیسے شاہکار ڈرامے دیکھے تو گویا مجھے لگا کہ نسیم حجازی کے ڈائلاگز اور انکے جاندار کردار میرے سامنے کھڑے ہیں...کبھی کبھار میں ان ڈراموں کے ڈائلاگز پڑھ کر ورطہ حیرت میں پڑجاتا ہوں کیونکہ تقریبا وہ ہوبہو نسیم حجازی کے ڈائلاگز کی اور منظرکشی کی نقل ہوتے ہیں...)\

نسیم حجازی کون تھے ؟؟؟


نسیم حجازی کے قلمی نام سے شریف حسین نے اُردو ناول میں نئی جہت کو متعارف کرایا۔نسیم حجازی (شریف حسین ) پنجاب کے ضلع گُرداسپور کی تحصیل دھاری وال کے گاؤں سُوجن پور میں ۱۹۱۴ ٔ میں پیدا ہوئے۔ جب کہ علم و ادب کا یہ سُورج ۲ مارچ ۱۹۹۶ ٔ کو راول پنڈی میں غروب ہوگیا۔ نسیم حجازی نے ۱۹۹۲ ٔ میں پرائڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ بھی حاصل کیا۔
مہارت حاصل تھی وہ کسی ایوارڈ کی محتاج نہیں تھی اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کسی بھی ایوارڈ کے حصول سے نسیم حجازی کے نہیں بلکہ اس ایوارڈ کی وقعت میں ہی اضافہ ہوا۔
پاکستان کا نسیم حجازی - ترکی کا مہمت بوزداگ


نسیم حجازی ۱۹۴۰ ء تا ۱۹۹۱ ء اُردو ادب کو ناول نگاری کے ذریعے مُسلم تاریخ سے آگاہ کرتے رہے، اُن کی ناول نگاری کا موضوع اور مواد اسلامی تاریخ ہے۔ اُنہوں نے اول روز سے ایک معتبر مورخ کا کردار ادا کیا ہے۔ فن پر ان کو مکمل قدرت حاصل ہے اور وہ ناول کی تکنیک سے اچھی طرح واقف ہیں۔ نسیم حجازی پر اسلامی تاریخ کے حوالے سے پروپیگنڈے کا الزام عائد کیا جاتا ہے، بالکل یہی بات اعجاز رحمانی کی شاعری کے لیے بھی کہی جاتی ہے۔ ابن ِ انشاء نے بھی شجاعت اور بہادری کے حوالے سے نسیم حجازی پر طنزیہ تبصرے کیے ہیں۔ آج بھی ملحد سیکولر اور لبرل مصنفین زہرفشانی کرتے ہیں جب کہ حقیقت یہ کہ جو شان اقبال ؔ کی شاعری میں موجود ہے وہی نسیم حجازی کی نثر میں نظر آتی ہے۔ اقبال ؔ نے اپنی شاعری کے ذریعے جو فلسفہ برصغیر کے مسلم عوام کو پیش کیا، نسیم حجازی نے بعینیہ وہی فلسفہ اپنی نثر کے ذریعے پیش کیا۔
نسیم حجازی نے ۱۹۴۰ء میں ’’ انسان اور دیوتا ‘‘ کا پہلا حصہ مکمل کیا اور پھر ’’ داستان ِ مجاہد ‘‘ تحریر کی۔ اس کے بعد ۱۹۴۷ء میں ’’ انسان اور دیوتا ‘‘ کی تکمیل ہوئی۔ نسیم حجازی کے فنی کما ل کا اندازہ لگانے کے لیے ان کے ناول ــ’’محمد بن قاسم ‘‘ کا مطالعہ کر کے دیکھا جاسکتا ہے کہ کس ہنر مندی اور چابک دستی سے انہوں نے صحیح تاریخ کی اصلیت برقرار رکھتے ہوئے ایک نہایت دلچسپ، خوب صور ت اور پُراثر داستان ترتیب دی ہے۔ جنگ کی حالت میں بھی انسانی رشتوں اور سرگرمیوں کی روداد نے ایک قابل ِ قبول ماحول پیدا کیا۔ چھوٹے بڑے ہر کردار نے اپنا مخصوص کردار بخوبی ادا کیا۔ یہاں تک کہ تما م فتوحات اور کمالات کے باوجود تاریخ ِ عالم کے اس عظیم ہیرو کا دردناک انجام بھی اس کی سیرت کے مطابق ہوا۔ وہ زندگی میں جتنا شاندار تھا اتنا ہی بلند موت کے وقت بھی نظر آیا۔ اس کی اخلاقی رفعت کے مقابلے میں سلیمان بن عبدالملک کی سلطنت بھی سرنگوں ہوگئی۔ اطاعت ِ امیر میں محمد بن قاسم کے ایثار و قربانی نے ان کی جنگی فتوحات کا اسلامی مقصد بالکل واضح کردیا۔
آخری چٹان میں عالم ِ اسلام کے خلاف منگولوں کی تباہ کن یلغار کا تنہا مقابلہ کرکے سلطان جلال الدین شاہ خوارزم نے بغداد کی خلافت ِ عباسیہ پر منڈلانے والے خطرات کو ایک مدت تک روکے رکھا۔ اس ناول میں وسط ایشیا کے جغرافیہ و تاریخ اور تہذیب و تمدن کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی ہیں اور عہد ِ وسطیٰ کے ہندوستان میں ایک نئی مسلم سلطنت کے آغاز کا حال بھی معلوم ہوتا ہے۔ یہ ناول منگولوں کے سیلاب اور وقت کے طوفانوں اور فتنوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی آخری اجتماعی عالمی مزاحمت واضح کرتا ہے۔
قیصر و کسریٰ اور قافلہ ٔ حجاز کے عنوانات سے دو ناولوں میں نسیم حجازی نے اسلام کے دور ِ زرّیں کو اپنی ناول نگاری کا موضوع بنایا ہے۔ وہ سچے واقعات کو افسانوی قالب میں ڈھال کر ماجرا سازی اور کردار نگاری کا جادو جگا تے ہیں۔
مسلم اسپین (ہسپانیہ، قرطبہ اور غرناطہ) کا نوحہ پڑھنے کے لیے نسیم حجازی کے قلم نے چار ناول تحریر کیے ہیں جن کو بالترتیب پڑھنا بہتر رہے گا: یوسف بن تاشفین، شاہین، اندھیری رات کے مسافر، کلیسا اور آگ۔
اندلس، غرناطہ، قرطبہ اور الحمرا کی داستان آپ کو ماضی میں لے جائے گی، خاص طور پر ’’کلیسا اور آگ ‘‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے آپ کو اس بات کی سچائی کا علم ہوجائے گا کہ ’’ کیا مغرب کبھی مہذب رہا ہے؟ ‘‘
نسیم حجازی کے ناول عبرت و بصیر ت کے مرقعے بھی ہیں۔ خیالات میں لطافت و جمالیات شاعری سے مخصوص سمجھی جاتی ہے لیکن نسیم حجازی کی نثر میں یہ خوبیاں موجود ہیں۔ عراق، قرطبہ، غرناطہ، ہسپانیہ اور ہندوستان میں جو کچھ مسلمانوں پر بیتی اس کا نوحہ نسیم حجازی کے اسلوب میں موجود ہے۔
نسیم حجازی کے بعض کردار جذباتی مکالمے پیش کرتے ہیں اور طویل مکالموں سے قاری کو ہرگز بوریت کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ وہ حقیقت سے بالکل دُور نہیں ہوتے۔ اُن کی ہر کتاب کے شروع ہوتے ہی حکمت و دانش کے موتی بھی ہر صفحے پر چمکتے مل جاتے ہیں۔
نسیم حجازی کی تصانیف
تاریخی ناول: قیصر و کسریٰ، قافلہ حجاز، داستان ِ مجاہد، محمد بن قاسم، آخری چٹان ، یوسف بن تاشفین، شاہین، اندھیری رات کے مسافر، کلیسا اور آگ، پردیسی درخت، گمشدہ قافلے، آخری معرکہ، معظم علی ، اور تلوار ٹوٹ گئی، خاک اور خون، انسان اور دیوتا
.

Post a Comment

0 Comments