منگولوں کی انوکھی شکاری مہمات

منگولوں کی انوکھی شکاری مہمات



سب سے بڑی سلطنت برطانیہ ایک وقت میں دنیا کے 26 فیصد حصے پر پھیلی ہوئی تھے۔ لیکن یہ سلطنت بکھری ہوئی تھی اور اس کے بہت سے علاقے ایک دوسرے سے متصل نہیں تھے۔ ایک دوسرے سے متصل علاقوں پر مشتمل سب سے بڑی سلطنت منگولوں نے تیرہویں اور چودہویں صدی عیسوی میں قائم کی۔ منگول سلطنت کا بانی مشہور فاتح چنگیز خان تھا۔ کسی بھی سلطنت کی فتوحات کے پس پشت مختلف سیاسی، سماجی اور معاشی عوامل کارفرما ہوتے ہیں، اس میں عسکری طاقت اور حکمت عملی کا کردار بھی بہت اہم ہوتا ہے۔ آخر کیا سبب تھا کہ بہت سے خطوں کی افواج منگولوں کی یورش کا مقابلہ نہ کر پائیں؟ دراصل منگول جانوروں کے شکار کے گُر انسانوں پر آزماتے تھے۔ منگول خانہ بدوش تھے اور ایشیا کے ان وسیع گھاس کے میدانوں میں رہتے تھے جہاں تیز ہوائیں چلتی ہیں اور سرما شدید ہوتا ہے۔ منگولوں کا رہن سہن اپنے جغرافیے سے مطابقت رکھتا تھا۔ آس پاس کے دیگر خانہ بدوشوں کی طرح وہ بھی مویشی پالتے تھے تاکہ اپنی غذائی ضروریات پوری کر سکیں۔ ان میں بھیڑ، بکریاں، اونٹ اور یاک شامل تھے۔ پالتو جانوروں کے دودھ سے وہ دہی اور پنیر وغیرہ بنا کر کھاتے اور ان کی اون سے بنے گرم کپڑے سرد موسم میں کام آتے۔ منگولیا کے سخت ماحول میں جانوروں کے بغیر زندگی کاتصور محال تھا۔ پالتو جانوروں کی اہمیت کے پیش نظر وہ اکثر جنگلی جانوروں کا شکار کر کے ان کا گوشت کھاتے تھے۔ گوشت کی مانگ ہر وقت رہتی اور جب کوئی جشن ہوتا تو مزید بڑھ جاتی۔ ان وسیع اور ویران میدانوں میں ایسے جنگلی جانوروں کی کمی نہیں تھی جنہیں پکڑ یا مار کر کھایا جا سکتا تھا یا جن کی کھال کو استعمال میں لایا جا سکتا تھا۔ عہد وسطیٰ میں شکار ہونے والے ان جانوروں میں ہارنس، ہرن، چکارا، خوک، جنگلی بیل، مارموت، بھیڑیا، لومڑی، خرگوش، جنگلی گدھا، سائبیریائی چیتا، شیر اور جنگلی پرندے شامل تھے۔ منگول گوشت کو بھون کر کھانے کے بجائے ابال کر کھانا پسند کرتے تھے۔ سوکھا ہوا گوشت سفر کرنے اور محاذجنگ میں شریک ہونے والے اپنے ساتھ رکھتے، کیونکہ یہ جلد خراب نہیں ہوتا تھا۔ 

اس دور میں شکار کرنے کے لیے دو ہنر لازمی تھے، گھڑسواری اور تیراندازی۔ منگول ان میں تاک تھے۔ منگول چھوٹی عمر میں ہی گھڑسواری اور تیر اندازی سیکھ لیتے۔ ان فنون میں شکار کی روایت مزید نکھار لاتی اور اسی سے منگولوں کو جنگ اور اس کی حکمت عملی کی تربیت ملتی۔ 
منگول سردیوں میں کم از کم ایک ماہ کے لیے اور زیادہ سے زیادہ تین ماہ کے لیے اکٹھے شکار کھیلتے۔ یہ شکار بہت منظم انداز اور بڑے پیمانے پر کھیلا جاتا۔ منگول مردوں کی اکثریت اس میں حصہ لیتی۔ شکار کے اس طریقے کو نرگی (Nerge) کہا جاتا ہے، جس کا ایک متبادل ''جرگہ‘‘ بھی ہے۔ یہ منگول فوج کی تربیت گاہ کا کام کرتا۔ اس سے شکار بھی ہاتھ آتا اور حوصلے بھی بلند ہوتے۔ جنگ میں مقام، تنظیم، ربط، وقت اور لڑنے کی استعداد سب چاہئیں، اور منگول ایک اجتماعی سرگرمی سے ان تمام کی مہارت پاتے۔ اس سرگرمی میں ہر ایک اپنے ذمے افعال سرانجام دیتا، مثلاً کسی نے تیرچلانے ہوتے تو کسی نے تیر پہنچانے ہوتے، کوئی کھانے کا اہتمام کرتا تو کوئی خیمے لگاتا۔ شکار کے لیے کسی وسیع و عریض مقام کا تعین کر لیا جاتا جس کے گرد کم و بیش 130 کلومیٹر پر منگول ایک خاص ترتیب میں جمع ہوتے۔ 
سب سے بڑا اجتماع تومن کہلاتا اور 10 ہزار پر مشتمل ہوتا، ان کے جھنڈے مختلف مقامات پر گاڑے جاتے۔ سیکڑوں میل دور اختتامی مقام کا تعین بھی کر دیا جاتا۔ سربراہ کا اشارہ ملنے پر مسلح شرکا آگے بڑھنے لگتے اور گھیرا تنگ کرتے جاتے۔ سامنے آنے والے جنگلی جانور بھاگ کھڑے ہوتے۔ اگلے چند ہفتوں میں گھیرا تنگ ہو جاتا اور ایک چھوٹے علاقے پر زیادہ جانوروں جمع ہو جاتے۔ اس طرح جانوروں کو مارنا آسان ہو جاتا۔ اس سارے عمل میں پوری کوشش ہوتی کہ کوئی جانور باہر نہ نکلے۔ اس مقصد کے لیے گھڑسوار شفٹوں میں کام کرتے تھے اور لمحہ بھر کو بھی بے خبر نہ ہوتے۔ اگر کہیں سے جانور حصار توڑ کر بھاگ نکلتا تو کوتاہی کرنے والے کو سخت سزا دی جاتی۔ 
جب گھیرا انتہا کو پہنچ جاتا اور جانوروں کی نشان دہی ہو جاتی تو پہلا تیر منگولوں کا خان چلاتا۔ کسی دوسرے کے تیر چلانے کا مطلب اس کی موت ہو سکتا تھا۔ آخر میں کچھ جانوروں کو چھوڑ دیا جاتا تاکہ ان کی نسل قائم رہے۔ اس کے بعد ایک ہفتے سے زائد عرصہ جشن منایا جاتا۔
شکار کی یہ طویل مشق اسی طرح ہوتی جس طرح منگول دشمن پر حملہ آور ہوتے۔ ان کے ہاں تیز رفتار گھڑسواروں کو کلیدی حیثیت حاصل تھی۔ بعض اوقات گھڑسوار اتنا پھیل جاتے کہ پوری دشمن فوج کو گھیر لیتے۔ اس کے بعد جو نکلنے کی کوشش کرتا اس کا بے رحمی سے شکار کیا جاتا۔
منگولوں کے گھوڑے قدرے چھوٹے مگر سخت جان ہوتے تھے۔ لکڑی، بانس یا سینگ سے بنے ان کے تیر بہت مضبوط ہوتے تھے۔ ان میں تیر کو نشانے پر پھینکنے کی خاص مہارت تھی۔ 
منگول فوج کی تقسیم اور ترتیب کم و بیش شکار والی ہوتی۔ اس میں سب سے کم درجے پر ''اربان‘‘ ہوتے، یہ 10 جنگجوؤں پر مشتمل ہوتا۔ 10 اربان سے ایک ''جاگون‘‘ بنتا جس میں 100 جنگجو ہوتے۔ 10 ''جاگون‘‘ میں ایک ہزار سپاہی ہوتے اور ان سے ''منقان‘‘ تشکیل پاتا۔ ایک ''تومن‘‘ 10 ''منقان‘‘ پر مشتمل ہوتا جس میں 10 ہزار نفوس ہوتے۔ ساری فوج تین حصوں میں تقسیم ہوتی۔ دایاں، بایاں اور مرکزی یا کلیدی حصہ۔ 
اس طریقے کی تصدیق مشہور یورپی سیاح مارکو پولو بھی کرتا ہے جس نے قبلائی خان کے دور میں منگول شہر شانگڈو کا دورہ کیا۔ مارکوپولو بتاتا ہے: 

جب تاتاری (منگول) شہزادہ جنگ کے لیے جاتا، وہ اپنے ایک لاکھ گھڑسوار لے جاتا۔ لیکن ہر 10، سو، ہزار اور 10 ہزار پر ایک آفیسر تعینات کرتاتاکہ اس کے احکامات صرف 10 افراد کو دینے کی ضرورت پیش آئے، ان 10 کو اگلے 10 کو ، اور اسی طرح۔ کسی کو 10 سے زیادہ افراد کو احکامات دینے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ ہر کوئی اپنے آفیسر کو جواب دہ ہوتا۔ نظم و ضبط کا یہ نظام شاندار تھاکیونکہ یہ لوگ اپنے سرداروں کے بہت فرمانبردار تھے

Post a Comment

0 Comments